فیضانِ فکر و احساس — دو غزلیں
✒ غلام مزمل عطاؔ اشرفی — سہرسہ، بہار، انڈیا
تعارف
زیرِ نظر غزلوں میں عصرِ حاضر کے علمی و فکری انتشار، دین کی تجارت، فرقہ بندی اور جمودِ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے باطن میں اٹھنے والی کیفیات، عشق و عبادت کی طلب اور تقدیر کے بدلتے مناظر کو علامتی اور عارفانہ اسلوب میں پیش کیا گیا ہے۔
غلام مزمل عطاؔ اشرفی نے ان اشعار میں ایک طرف دانش و حکمت کی کجیوں پر مؤثر تنقید کی ہے تو دوسری طرف دل کی دنیا میں جذبوں کے بدلتے رنگ، امید و یأس کے اتار چڑھاؤ اور عشق کے امتحانات کو نہایت سادہ مگر گہرے لہجے میں سمو دیا ہے۔
غزل اوّل
مصلحت نے جس دل میں نور کی ضیا دی ہے
وہ کتابِ حکمت کو حرف کی سزا دی ہے
چند اہلِ دانش نے علم کو ادا سمجھا
لفظ کی حرارت کو خوف کی ردا دی ہے
دارِ علم میں اکثر اہلِ علم کی قلت نے
علم کے مسافر کو راہ کی بلا دی ہے
فرقہ بندیوں نے جو حال قوم و ملت کو
ایک جسمِ بیمار کو زہر کی ہوا دی ہے
چند واعظوں نے جب دین کو تجارت کی
ہر فقیرِ تربت نے اس کو بے نوا دی ہے
وقت کے جمود نے جب فکر کو جکڑ ڈالا
ہر قلم نے لرز کر بھی خوف کی ادا دی ہے
پُرفتن زمانے میں سچ کہا عطاؔ نے جو
اہلِ کج روائی نے اس کو بھی سزا دی ہے
غزل دوم
جذبۂ دل کی روایات بدل جاتے ہیں
وقت کے ساتھ خیالات بدل جاتے ہیں
جب ہوائیں رخِ معنی جو بدلتی ہیں پھر
لفظ بدل جا تے ہیں ، جذبات بدل جاتے ہیں
اس نگاہوں کی کرامات عجب یہ ہیں کہ
غم کی شب شوق میں برسات بدل جاتے ہیں
جب مقدر کا کوئی باب نیا کھل جائے
عمر کے سارے ہی صفحات بدل جاتے ہیں
قلب میں شوقِ عبادت تھا بہت لیکن پھر
دن بدلتے ہیں، حرکات بدل جاتے ہیں
جس گھڑی عشق کو مفہومِ نیام مل جائے
پھر محبت کے حکایات بدل جاتے ہیں
امتحاں کا یہ عجب عشق میں دستور ہے
اے عطاؔ دل کے بدلتے ہی سوالات بدل جاتے ہیں

Post a Comment